Security System Installation at Homes. Offices. and Buildings in Dubai

Saturday, February 11, 2017

Mind Blowing Article


Mind Blowing Article           


امیر المومنین حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ شدید سرد اور تاریک رات میں ایک جگہ آگ روشن دیکھی۔ چنانچہ وہاں تشریف لے گئے۔ ساتھ جلیل القدر صحابی حضرتِ عبدالر حمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی تھے
حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے آگ کے پاس ایک عورت کو دیکھا جس کے تین بچے زاروقطار رو رہے تھے۔ ایک بچہ کہہ رہا تھا: امی جان ! ان آنسو ؤں پر رحم کھاؤ اور کچھ کھانے کو دو۔ دوسرا بچہ یہ کہہ کر رو رہا تھا! لگتا ہے شدید بھوک سے جان چلی جائے گی۔تیسرا بچہ یہ کہہ کر رہا تھا: امی جان! کیا موت کی آغوش میں جانے سے پہلے مجھے کچھ کھانے کو مل سکتا ہے؟؟؟
حضرتِ عمر بن حطاب رضی اللہ عنہ آگ کے پاس بیٹھ گئے اور عورت سے پوچھا: اے اللہ کی بندی! تیرے اس حال کا ذمہ ذمہ دار کون ہے؟
عورت نے جواب دیا کہ اللہ اللہ ! میری اس حالت کا ذمہ دار امیر المومنین عمر ہے۔حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا : کوئی ہے جس نے عمر کو تمھارے اس حال سے آگاہ کیا ہو؟ عورت نے جواب دیا: ہمارا حکمران ہو کر وہ ہم سے غافل رہے گا؟ یہ کیسا حکمران ہے، جس کو اپنی رعایا کی کچھ خبر نہیں؟۔
یہ جواب سن کر حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ( راتوں رات )۔ مسلمانوں کے بیت المال گئے اور دروازہ کھولا۔
بیت المال کا محافط ( چوکیدار) بولا: خیر تو ہے امیر المومنین؟
حضرتِ عمررضی اللہ عنہ نے اس کا جواب نہیں دیا اور آٹے کی ایک بوری،گھی اور شہد کا ایک ایک ڈبا بیت المال سے نکالا اور چوکیدار سے فرمایا: انہیں میرے پیٹھ پر لاد دو۔
چوکیدار نے عرض کیا: آپ چاہتے کیا ہیں۔
حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پیٹھ پر لاد دو۔
چوکیدار نے عرض کیا: آپ یہ چیریں اپنی پیٹھ پر نہ لادیں ،اے امیر المومنین!۔
چوکیدار نے کوشش کی کہ امیر المومنین کا تیار کردہ سامان وہ خود اپنی پیٹھ پر لاد لے لیکن امیر المومنین نے سختی سے انکار کیا اور اس سے یوں مخاطب ہوئے:۔
"تیری ماں تجھے کھو دے!یہ سامان میرے پیٹھ پر لاد دو کیا قیامت کے روز تم میرے گناہوں کا بوجھ اُٹھاؤ گے؟"۔
یہ کہہ کر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ آٹا ، گھی اور شہد اپنی پیٹھ پر لاد لیا۔
جب اس عورت کے گھر پہنچے تو آگ کے پاس بیٹھ گئے ان بچوں کے لیے کھانا پکایا۔جب کھانا تیار ہوگیا تو اس میں گھی اور شہد کی آمیزش کی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے بچوں کو کھانا کھلایا۔یہ منظر دیکھ کر ان یتیم بچوں کی ماں کہنے لگی۔
" قسم اللہ کی! تم عمر سے کئی زیادہ منصبِ خلافت کے اہل ہو"
حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: اے اللہ کی بندی! کل عمر کے پاس جاؤ،وہاں میں ہوں گا اور تمھارے معاملات کے متعلق اس سے سفارش کروں گا۔
یہ کہہ کر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ واپس آگئے اور ایک چٹان کے پیچھے آکر بیٹھ رہے اور ان بچوں کو دیکھتے رہے. . 





حضرتِ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:آیئے واپس چلتے ہیں کیونکہ رات بہت ٹھنڈی ہے۔
حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم!میں اپنی جگہ اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک ان بچوں کوہنستا ہوا نہ دیکھ لوں،جیسے میں آتے وقت انھیں روتے ہوئے دیکھا تھا۔
جب اگلے روز کاسورج طلوع ہوا تو اس یتیم بچوں کی ماں دربارِ خلافت میں گئی۔ وہاں اس نے دیکھا کہ حضرتِ علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے مابین ایک شخص تشریف فرما ہے اور وہ دونوں حضرات اسے امیر المومنین کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔اور یہ وہی شخص تھا جس نے گزشتہ رات اس عورت اور اس کے بچوں کی خدمت میں گزاری تھی، جس سے اس نے کہا تھا ،اللہ اللہ میری اس حالت کا زمہ دار عمر ہےچنانچہ جب عورت کی نگاہ حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ پر پڑی تو گویا اس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔
امیر المومنین نے عورت سے فرمایا:اللہ کی بندی! تیرا کوئی قصور نہیں، چل بتا،تو اپنی شکایت کتنی قیمت کے عوض فرخت کرے گی۔
عورت گویا ہوئی: معاف فرمایئے اے امر المومنین!۔
حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:قسم اللہ کی ! تو اس جگہ سے ہٹ نہیں سکتی جب تک کہ میرے ہاتھ اپنی شکایت بیچ نہ دو۔ ۔ ۔ ۔
بالآخر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے اس بیوہ خاتون کی شکایت اپنے مالِ خاص سے چھ سو درہم کے عوض خرید لی، اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کاغذ قلم لانے کا حکم دیا ۔ اور یہ تحریر قلم بند کرائی
۔"ہم علی اور ابن مسعود اس بات پر گواہ ہیں کہ فلاں عورت نے اپنی شکایت امیر المومنین عمر بن خطاب کے ہاتھ فرخت کردی"۔
پھر امیر المومنین حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
""جب میری وفات ہو جائے تو اسے میرے کفن میں رکھ دینا تاکہ میں اس کے لے کر اللہ سے ملاقات کروں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
البدایۃ و النھایۃ العلا مۃ ابن کثر۔185/10۔187۔دار ھجر
★****************************★

No comments:

Post a Comment